Skip to main content

Posts

Showing posts from 2022

اصل کام

  ہر لمحہ نظروں کے سامنے ہزاروں معجزات رونما ہوتے ہیں۔ مثلًا ہوائیں چلتی ہیں، موت آتی ہے، دل دھڑ  کتاہے، سانس چلتی ہے،کھانا ہضم ہوتا ہے،   کچھ پودھے زمین میں لگے ہوئے بڑے ہو رہے ہیں تو کچھ پانی میں اور کچھ ریت میں۔ انسان چلتا پھر تا بڑا ہو رہا ہے تو پہاڑ زمیں سے لگے ہوئے بڑے ہورہے ہیں۔جیسے نظام  رزق چلتا ہےساری مخلوقات کا:انسان کے علاوہ کوئی کماتا نہیں ہے چاہے آبی  جانورہو، یا خسکی کے جانور ہوں یا پھر فضاوں میں رہنے والے۔ایک نظام ہے جو خودبخود چلتا ہے۔ جو اللہ کا نظام ہے۔ جس پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے ۔اسی طریقہ سے دنیا میں جو کچھ ملنا ہے  چاہے وہ جزا ہو یا سزا وہ ملکر رہے گا اسکا نظام خود    بخود بنتا جائیگا۔اور یہ نظام گھڑی کی سوئی کی طرح اتنا سست ہے کہ ہر کوئی  غورو خوض نہیں کر پاتا۔اسلئے انسان کو چاہیے کہ  عارضی زندگی کے پیچھے اپنا وقت ضائع نہ  کرے اور اصل اختیار اللہ نےجو انسانوں کو دیا ہے وہ دائمی زندگی سنوارنے پر دیا ہے۔

محبت کا امتحان

جب ہم اللہ سے محبت کرتےہیں تو اللہ اپنی محبت کا امتحان بھی لیتاہے۔روکاوٹیں اس کثرت سے آتی ہیں کہ ہمارا اللہ کی طرف متوجہ ہونا مشکل ترین ہوجاتا ہے۔ اور اگر ہم کامیاب ہوتے ہو تو ایک پرسکون زندگی جینے کا لطف حاصل کرینگے۔ اللہ سے محبت نہ کرنے والوں کیلئے کوئی امتحان نہیں ہے ۔وہ دنیا کی الجھن میں پریشان رہتے ہیں۔کچھ دیر کے لئے کوئی چیز  سکون دیگی اور پھر چلی جائیگی۔اور وہ ہمیشہ کسی نہ کسی چیز یا شخص کیلئے بیقرار اور بےچین رہےگا۔ یہ میری اپنی رائے ہے۔ آپ کے تجربات اس سے مختلف ہو سکتے ہیں۔

دنیاں میرے اندر

ایک دنیا ہے جس میں ہم رہتے ہیں اور دوسری دنیا ہے جو ہم میں رہتی ہے۔ دنیا دل لگانےکی جگہ نہیں ہے بلکہ استعمال کرنے کی جگہ ہے۔حصول دنیا جیسے ہی ضرورت سے زیادہ آ جاتی ہے اور  ہمارے اندر سمانے لگتی ہے اور ہم محو ہو جاتے ہیں۔اسکی مثال ایسے ہے۔ جیسے کشتی پانی میں۔جب تک کشتی پانی میں ہے تب تک وہ وقت کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی ہے اور جیسے ہی پانی کشتی میں آجاتا ہے وہیں نیست و نابود ہو جاتی ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ ہم عام حالتوں میں تو اللہ سے غافل رہتے  ہی ہیں اور نماز کی حالت میں بھی اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتے ہیں جبکہ مسجد میں تو کوئی دنیا سامنے نہیں ہوتی ہے۔وہ دنیا جو ہمارے دل و دماغ میں سما جاتی ہےبڑی ہی خطرناک دنیا ہے۔ اللہ اس سے ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین

اگر تم کر سکو تو

تنبیہ؛ میرے خیالات میرے تجربات پر مبنی ہیں۔آپ کا نظریہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے۔لہٰذا آپ کو پورا اختیار ہے اس بات سے متّفق ہوکر عمل کریں یا پھر نظرانداز کردیں۔ کوشش کرو کہ تم دنیا میں سب سے اچھے بیٹا، سب سے اچھے بھائی، سب سے اچھے دو سب سے اچھے شوہر ، سب سے اچھے باپ، اور سب سے اچھے سسر، اور آخر میں سب سے اچھے  دادا بن کے دکھاؤ اگر تم لڑکے ہو۔ اور اسی طرح تم دنیا میں سب سے  اچھی بیٹی، سب سے اچھی بہن،سب سے اچھی سہیلی،  سب سے اچھی بیوی، سب سے اچھی بہو، سب سے اچھی ماں، اور سب سے اچھی سانس، اور آخر میں سب سے اچھی دادی بن کر دکھاؤ  اگر تم لڑکی ہو۔

محبت کیا ہے؟

سوال: آپ علم، عبادت اور محبت میں جینے کی بات کرتے ہیں۔ محبت سے کیا مراد ہے، آپ کے لفظوں میں؟ جواب: بھوکے کو کھانا کھلانا، بیمار کو حوصلہ دینا، دوستوں کی مزاج پرسی کرنا، حاجت مند کی حاجت پوری کرنا، لاچاروں کی خدمت کرنا، شکّی کے شک کو دور کرنا، انپڑھ کو علم دینا، بوڑھوں کا ادب کرنا، بچّوں پر شفقت کرنا اور جانوروں پررحم کرنا ہی  سچی محبت ہے۔اور ان سب عمور سے اجرالٰہی کی توقع رکھنا نہ کہ بندوں سے کوئی توقع رکھنا۔

عقل کی پختگی کیا ہے؟

سوال: آپ کی نظر میں عقل کی پختگی (Maturity) کیا ہے؟ جواب: جب زندگی سے شکایت ختم ہو جائے اور اللہ کے فیصلوں کو  آپ کی عقل تسلیم کرنے لگے۔جب قدرت کے فیصلوں اور اسکے حکمت میں بھلائی نظر آنے لگے۔ جب توقعات کے بر عکس نتیجے پر صبر کرنا آسان ہو جائے تو سمجھ لیں کہ آپ کے اندر پختگی آگئی ہے۔

اقوالِ رچمائند

           نصیحتیں                                                    ۱۔جو کچھ تو چاہتا ہے خود کو اس لائق بنالے اور اپنے کو اس لائق مت سمجھ جب تک کہ وہ چیز تجھ کو نہ پوکارے۔ ۲۔ دنیاں میں ہر چیز ہمیں کچھ نہ کچھ سبق د یتی ہے۔ خواہ اس کا لینے والا ہو یا نہ ہو۔ ۳۔ہمیں چاہیے کہ اپنی کمیوں کو ڈھونڈھ  ڈھونڈھ کر درست کریں۔ایک دن کمیاں ہی نظر نہیں آئینگی۔ ۴۔ کسی سے  صلاح لینا غلط نہیں ہے بلکہ اس صلاح پر غوروفکر کئے بغیر عمل کرنا گمراہی ہے۔  ۵۔ گفتگو میں لفظِ میں کا استعمال کم کیا جائے تو عزّت ہے۔ ۶۔ کسی چیز کو سیکھ لینا کمال نہیں ہے بلکہ اس چیز کو برقرار رکھنا کمال ہے۔ ۷۔ جو شخص اپنے علم کا استعمال نہیں کرتا اس کی مثال بالکل اس آدمی کی طرح ہے جس کے پاس کوئی علم نہیں۔ ۸۔ علم کا جتنا استعمال کیا جائے اتنا ہی چمکتا ہے۔جس طرح پیتل کو جتنا گھسا جائے اتنی ہی چمکتی ہے۔ ۹ ۔تعلیم زندگی کی ضرورت ہے۔ ۱۰۔ اپنی قسمت کا لقمہ اٹھاکر کھانا پڑتا ہے۔ ۱۱۔ وہ لوگ عموماً عقل مند ہوتے ہیں جو احمق سےنظر آتے ہیں۔ ۱۲۔ ہر کامیابی کے پیچھے کوئی نہ کوئی راز ہوتا ہے۔ ۱۳۔ محنت کے مقابلہ میں حقمت سے زیادہ کمایا جاسکتا ہے۔

کامیابی کے مراحل

کامیابی حاصل کرنے کیلے  انسان کے اختیار میں ۳ چیزین ہیں: ۱۔نیّت کا صاف رکھنا ۲۔اللہ سے دعا کرنا ۳۔دلجوئی سے کوشش کرنا جس کے تین مراحل ہیں: (ا)  مقصدسے روبرو ہونا ( Clarity  of vision) (ب)  اصولوں کا پابند ہونا (To maintain the discipline) (ت) عمل پیرا ہونا (To take action) تنبیہ: میرے خیالات میرے تجربات پر مبنی ہیں۔ آپ کا نظریہ اس سے مختلف ہو سکتا ہے۔ لہٰذا آپ کو پورا اختیار ہے اس بات سے متّفق ہوکر عمل کریں یا پھر نظرانداز کردیں

آزمائشین

    کیا ہم اپنے زندگی  کی آزمائشوں میں کامیاب ہو پاتے ہیں؟    ۱۔ جب کسی  کی غیبت اور  چگلی کرنے اور الزام لگانے سے بچنے کی آزمائش  ہو۔      ۲۔جب شکایت نہ کرنے اور صبر کا دامن تھام لینے کی آزمائش ہو۔      ۳۔جب حسد سے بچنے اور محبت پر ٹکنے کی آزمائش ہو۔      ۴۔جب    جھوٹ سے بچنے اور سچے بنے رہنے کی آزمائش ہو۔      ۵۔جب غلاظت سے بچنے اور اپنے کام ، معاملات، جسم، ذہن اور جگہ کو صاف رکھنے کی آزمائش ہو۔      ۶۔جب عدل اور انصاف کر نے اور غیر جانبدار  ہونے کی آزمائش ہو۔      ۷۔ جب علم حاصل کرنے اور غلط طریقہ اختیار کر نے سے بچنے کی آزمائش ہو۔      ۸۔ جب اپبی عقل کو علم کے راستے پر چلانے اور نفس پرستی سے بچنے  کی آزمائش ہو۔